اما م ربانی رحمۃ اللہ علیہ –عرفان کے مجتہد اعظم

  • Admin
  • Jan 31, 2022

اما م ربانی رحمۃ اللہ علیہ –عرفان کے مجتہد اعظم

(از :پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی)

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم ہستی ہیں جنہوں نے علم و عرفان کے وہ چراغ روشن کیے ہیں جن کی ضیاپاشیاں اور تابانیاں  قیامت تک آنے والے فرزندان توحید اور سالکین راہ کو جادہ مستقیم پر گامزن کرنے کے لئے سبل السلام (سلامتی کی راہوں) کو منور کرتی رہیں گی۔امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات علم و عرفان اور معرفت خداوندی کا آئینہ اور حسین مرقع ہیں۔ تین دفتروں پر مشتمل، پانچ سو سے زیادہ مکتوبات میں سے ہر مکتوب کے بارے میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ:

زفرق تابقدم ہر کجا کہ می نگرم کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست

  علم و عرفان اور معرفت خداوندی کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں سے فقط ایک مکتوب میں سے چند سطور پر مشتمل ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

''درہمان مقام یک کو شک عالی مطاہر شد کہ زنیہا نہادہ اند آنجا میر آمد وآن مقام ہم در رنگ عالم بتدریج فرو رفت و ساعۃ فساعۃ خود را متصاعد مے یافت اتفاقاً نماز شکر وضو میگڈارد کہ مقامے بس عالی نمایاں شدہ واکابر اربو نقشبندیہ راقدس اللہ اسرارہم دمآں مقام دید ومشائخ دیگر ہم مثل سید الطائفہ وغیرہ در آنجا بودند وبعضے دیگر مشائخ بالائے آن مقام ہتند اما قوائم آنرا گر فقہ نشستہ اندوبعضے پایاں علی تفاوت در جاتہم وخور ابسیار دورازان  مقام یافت بلکہ مناست ہم ندیدازین واقعہ اضطراب تمام پیدا شد نزدیک بود کہ دیوانہ شدہ بر آید و از فرط اند وہ وغصہ قالب تمہی کند چند گاہ برین نہج گذشت آخر بتو جہات غلیہ حضرت ایشان خود را مناسب آن مقام دید اول سر خود را مجازی انمقام یافت بتدریج رفت ولالائے ان مقام نشست بعد از توجہ چنان مخطور شد کہ آن مقام مقام تکمیل تام است کہ بعد از تمامی سلوک بآن مقام میر سند مجذوب سلوک تمام نا کردہ را از ان مقام بہرہ نیست نیز درآن وقت چناں مخیل گشت کہ وصول بایں مقام از نتائج آن واقعہ است کہ در ملازمت حضرت ایشان دیدہ و بعرض  رسانیدہ کہ حضرت امیر کرم اللہ تعالیٰ وجہہ می فرماید کہ آمدہ ام تاتر اعلم سمٰوٰت تعلیم کنم"

من ان حاکم کہ ابر نو بہاری

کند از لطف برمن قطرہ باری 

 

اگر برردید از تن صد ز بانم 

چو سبزہ شکر لطفش کے توانم

ہر چند اظہار این قسم احوال موہم جرت و گستاخی است ۔۔۔۔الحال معارفے کہ باین کمینہ فائض اند اکثر تفصیل معارف شرعیہ است وبیان آنہا و علم استدلالی و کشفی و ضروری مے گردد و مجمل مفصل مے شود

گر بگویم شرح این بے حد شود 

( مکتوبات امام  ربانی ؒ دفتر اول حصہ اول مکتوب دوم صفحہ:6)

اس طویل مکتوب میں جو آپ نے اپنے پیر بزرگوار کو تحریر کیا ہے جہاں عظیم ہستیوں کے مقامات کی زیارت کا ذکر کیا ہے۔مثلا خلفائے راشدین، ائمہ اہل بیت، امامین کریمین، امام زین العابدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور یہ ذکر انتہائی تواضع و انکسار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا ہے وہاں مشائخ عظام اور ان کی خصوصیات کا بیان بھی فرمایا ہے۔ مثلا حضرت خواجہ احرار، حضرت خواجہ نقشبند، حضرت خواجہ علاؤالدین عطار، حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر، حضرت شیخ علاء الدولہ رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔ علاوہ ازیں ان احباب کا بھی ذکر کیا ہے جو مختلف مقامات پر رک گئے ہیں مثلا شیخ نور، مولانا مھعود،  سید شاہ حسین، میاں جعفر، میاں شیخی، شیخ عیسٰی، شیخ کمال، شیخ ناگوری، شیخ مزمل، خواجہ ضیاء الدین.  ان دوستوں کے حالات کو اپنے تبصرے کے ساتھ اپنے پیر بزرگوار کو آگاہ کیا ہے۔  اس مکتوب سے مستنبط ہوتا ہے کہ علوم و معارف میں امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی رسائی روز بروز تعمیر و ترقی کے مراحل سے گزر رہی ہے  آپ پر عظیم ہستیوں کے اعلیٰ و ارفع مقامات ظاہر اور مشائخ کے مقامات عیاں ہورہے ہیں۔ مثلاً '' و بالائی آنمقام ہیچ مقامی مفہوم نمی شود الا مقام حضرت رسالت خاتمیت علیہ من الصلوٰۃ اتمھا ومن التحیات اکملھا''۔( صفحہ نمبر )23 ومحاذی مقام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ.... معلوم شد کہ آنمقام مقام محبوبیت است.... ودریا ران دیگر ہم تفاوت ظاہر میشود۔ صفحہ نمبر 25  امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر نظر مکتوب کا مطالعہ کرنے والے قارئین اس امر کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آپ واقعی بجاطور پر  عرفان کے مجتہد اعظم ہیں، عظیم ہستیوں کے مقامات سے آگاہ، مشائخ عظام کے حالات پر نگاہ رکھے ہوئے اور احباب کے مقامات کی نگہبانی فرما رہے ہیں۔ ( مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ اول مکتوب یازدہم نمبر صفحہ، 21 تا 27)

عروج و کمال کے بلند مقامات پر فائز  اور عرفان کے مجتہد اعظم، جن کے ہر ہر مکتوب سے علم و عرفان کے چشمے ابل رہے ہیں خود انکسار و تواضع کے پیکر نظر آتے ہیں۔ ان کے انکسار و تواضع  کے الفاظ کو نقل کرنے سے بھی حجاب و حیا دامنگیر ہورہی ہے لہذا فقط اشارے پر اکتفا کرتا ہوں۔ '' مدبر سیاہ ردومقصر بد خو مغرور وقت و حال.... حسنات او شایان طعن و طرد'' صفحہ نمبر 17  اس اقتباس کا پڑھنے والا حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے تواضع و انکسار کے جذبے کی تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ( مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ اول مکتوب نہم صفحہ نمبر 17)  مکتوب ہفتم کے اس مختصر اقتباس پر توجہ مرکوز فرمائے علوم و معارف کا بحر ذخار ہے  جس کی وسعتوں کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں،البتہ چند اشارات پیش کرنے پر اتفاق کرتا ہوں:

1۔ان مقامات بلند کا مشاہدہ کرنے والی عظیم ہستی امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ عظمتوں کے عروج و کمال پر نظر آتی ہے۔

2۔یہ مشاہدہ شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع کی برکات سے حاصل ہوا کہ جب آپ نماز شکر وضو (تحیۃ الوضو) ادا فرما رہے تھے گویا شریعت کے سنن مستحبات بھی موجب صد خیروبرکت ہیں۔

3۔اس عظیم سعادت و اعزاز کے حصول پر فخر و مباہات کا اظہار نہیں بلکہ اسے (تبوجھات علیہ حضرت ایشان)  اپنے پیر بزرگوار کے فیضان صحبت کا ثمر قرار دیا ہے۔

4۔ مشائخ اکابر اربعہ  نقشبندیہ و دیگر مشائخ عظام کی زیارت اس عظیم مقام کے حصول کی آرزو کو مہمیز لگا رہی ہے  اور عدم حصول کی وجہ سے پیدا ہونے والے اس کتاب کا اندازہ محتاج بیان نہیں اور  حصول کے بعد سکون و طمانیت کو پیر بزرگوار کی توجہ عالی کا نتیجہ ذکر کیا ہے۔

5۔ پیر بزرگوار کی تربیت کے روحانی فیضان سے ذہن و قلب میں جلا اور روشنی امڈ رہی ہے جس سے حکمت و بصیرت اور حصول سعادت کے موجبات کی نشاندہی ہو رہی ہے۔

6۔مشائخ عظام کے درجات میں تفاوت نظر آ رہا ہے۔

7۔ یہ مقامات بلکہ مقام تکمیل تام طویل مجاہدے و ریاضت سے حاصل ہوتا ہے۔

8۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم سماوات کی تعلیم کا اعزاز بھی شیخ طریقت اور پیر بزرگوار کی ملازمت صحبت بابرکت اور روحانی تربیت کا ثمرہ ہے۔

9۔ ''الطریق کلہ ادب''  کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی حکایت عروج و کمال کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ انکسا و تواضع کی جھلک نمایاں ہیں۔  حکمت و بصیرت نے ایک غواص اور وتعزمن کیلئے اس اقتباس میں سچے موتیوں کی کمی نہیں لیکن اشارۃالنص  سے عبارت النص کی طرف رخ کرتے ہوئے اب ہم امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات سے ان اقتباسات کا جائزہ لیتے ہیں جو صراحت اور وضاحت سے ان معانی و مطالب کے ذکر پر مشتمل ہیں۔  امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات اسرار و معارف کا بیش قیمت خزانہ ہیں اور عظمت و فوقیت اسلام، اسلامی تصوف کی خصوصیات،  عقائد حقہ توحید و رسالت کو نکھار کے ساتھ پیش کرنے،  ارکان اسلام کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنے کے دینی و علمی مباحث میں بلند درجہ رکھتے ہیں۔  آپ رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں عالمانہ، فاضلانہ ،محققانہ اور مجتہدانہ انداز میں تحریر فرمایا ہے۔مکتوبات کا مطالعہ کرنے والے ناصرف یہ کہ آپؒ کے علمی و روحانی صلاحیتوں کے معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے بلکہ انہیں یقین کی یہ نعمت اور دولت بھی میسر آتی ہے کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ واقعی درجہ امامت و مقام اجتہاد پر فائز ہیں۔

آپؒ کے مکتوبات میں سے دفتراول کو دارالمعرفت، دفتر دوم کونور الخلائق اور دفتر سوم کو معرفت الحقائق کے نام سے موسوم کیا گیا ہے تاکہ علم و عرفان اور معرفت کے ان سرچشموں کی نشاندہی عنوان سے ہی واضح ہو جائے۔ علم و عرفان کے سچے موتی اور امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی اجتہادی بصیرت کے علمی براہین پر مبنی چند متعلقہ ومربوط اقتباسات پیش کرنے سے قبل یہ مناسب ہوگا کہ ان امور کا مختصر جائزہ لے لیا جائے کہ: 

معرفت خداوندی اور علم و عرفان کا مقصد کیا ہے؟  قرآن حکیم اور سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ضمن میں کیا رہنمائی عطا کی ہے اور اس بارے میں مشائخ عظام کے کیا ارشادات ہیں؟  قرآن حکیم نے جو علوم و معارف کا عظیم، غیر محدود اور لامتناہی خزانہ ہے اور جس نے حیات انسانی کے جملہ شعبہ ہائے حیات میں جامع، کامل، روشن اور محفوظ رہنما اصول عطا فرمائے ہیں انسان کی سب سے بڑی سعادت اور نعمت معرفت خداوندی کو قرار دیا ہے  جس سے انسان اور مرد مومن کو اللہ تعالی کا خصوصی قرب، معیت اور رضوان کا حصول میسر آتا ہے،

ارشاد باری تعالی ہے:

قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام ویخرجھم من الظلمات الی النور باذنہ ویھدیم الی صراط مستقیم. (المائدہ 15،16) 

اس سلسلے میں پیر کرم شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں،  قرطبی نے امام حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے کہ السلام، اللہ عزوجل اور علامہ بیضاوی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے، او سبل اللہ (بیضاوی)  یعنی معرفت الٰہی کے وہ خاص راستے جن پر چلنے سے قرب حق نصیب ہوتا ہے اور دوری سے حجاب اٹھادئیے جاتے ہیں جو اپنے دل سے تمام خواہشات کو باہر نکال پھینکتا ہے اور اخلاص نیت کے ساتھ اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کے لئے شب و روز تڑپتا رہتا ہے  تو آفتاب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شعائیں اس کے لیے ان راہوں کو منور اور روشن کر دیتی ہیں جن پر چلنے سے اسے قرب حق نصیب ہوتا ہے۔ (ضیاء القرآن، ازپیر محمد کرم شاہ الازہری) جلد اول، لاہور 1402ھ صفحہ      )454 سورۃ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وما قدرواللہ حق قدرہ ) اور انہوں نے نہ قدر پہچانی اللہ کی جیسے حق تھا اس کی قدر پہچاننے کا۔(الانعام، 92  صاحب روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ قدر کا اصلی معنی تو کسی چیز کی مقدار کو جاننا ہے لیکن اب اس کا اطلاق کسی چیز کو اس کے تمام پہلوؤں سے پہچاننے پر ہوتا ہے اب کثرت استعمال سے یہی اس کا معنیٰ حقیقی ہوگیا ہے۔ واصل القدر معرفۃ المقدار بالسبر ثم استعمل فی معرفۃ الشیئ علی اتم الوجوہ حتی صار حقیقہ فیہ(روح)   برصغیر پاک و ہند میں اسلامی تصور کے اولین محسن حجۃ الکاملین حضرت ابوالحسن سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرمان خداوندی، وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں۔  یہاں یعبدون سے مراد یعرفون ہے یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی معرفت کے سوا اور کسی چیز کے لیے پیدا نہیں کیا، اکثر لوگ اس سے غافل ہیں سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ تعالی نے منتخب کرکے دنیا کی تاریکیوں سے نجات دے دی ہے اور ان کے دلوں کو اپنی محبت سے زندہ کر دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس،

یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس کی مثال ہیں۔ کمن مثلہ فی الظلمت، یعنی ابوجہل۔  پس معرفت حق کے ذریعے دل کی زندگی اور حق تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز سے منہ پھیرنے کا نام ہے،  ہر شخص کی قدر و منزلت اس کی معرفت کے مطابق ہے جسے معرفت حاصل نہیں وہ بے قیمت ہے۔علماء اور فقہاء اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کے صحیح علم رکھنے کو معرفت کہتے ہیں جبکہ صوفیاء کرام کے نزدیک معرفت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے حال کا صحیح رکھنا ہے اور یہ اس لئے کہ ان کے نزدیک معرفت  علم سے افضل ہے اور حال کی صحت صحیح علم کے بغیر ممکن نہیں مگر علم کی صحت حال کی صحت کی ضامن نہیں ہوتی یعنی جب تک عالم بحق نہ ہو عارف نہیں ہوسکتا مگر عالم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ عارف نہ ہو۔ 

سیدنا داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے کشف حجاب اول-معرفت خداوندی میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:

'' لو عرفتم اللہ حق محرفتہ نمشیتم علی البحور وزالت بدعاکم الجبال''

( اگر تم اللہ تعالی کو کماحقہ پہچان لیتے تو تم دریاؤں پر قدم رکھ کر گزر جاتے اور تمہاری دعاؤں سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جاتے)۔

  سیدنا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے امیر المومنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے ضمن میں یہ تحریر کیا ہے کہ جب ان سے معرفت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

عرفت اللہ باللہ وعرفت مادون اللہ بنوراللہ

( میں نے اللہ تعالی کو خود اللہ کے ذریعہ پہچانا اور ماسوی اللہ کو بھی اسی کے نور سے پہچانا) 

سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں مختلف جگہوں پر نیز معرفت خداوندی کے باب میں مشائخ عظام کے اقوال ذکر کئے ہیں ان میں سے فقط چند ایک پیش کرنے پر اتفاق کرتا ہوں:

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایاک ان تکون بالمعرفۃ مدعیا (خبردار معرفت کا دعویٰ نہ کرنا)  یعنی اس کی حقیقت سے اپنا تعلق قائم کرنا کہ نجات حاصل ہو۔

نیز فرمایا: حقیقۃ المعرفۃ اطلاع الخلق علی اسرار بمواصلۃ

( معرفت کی حقیقت لطائف انوار کے ذریعے مخلوق کا اسرار پر اطلاع پانا ہے)

حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

المعرفۃ ان تعرف ان حرکات الخلق وسکناتھم باللہ

( معرفت یہ ہے کہ تو یہ بات جان لے کہ مخلوق کی حرکات و سکنات خدا کی طرف سے ہیں)

حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

حقیقۃ المعرفۃ العجز عن المعرفۃ

(معرفت کی حقیقت معرفت سے عجز ہے)

  باب کے آخر میں سیدنا ہجویری رحمۃ اللہ علیہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کو بیان فرماتے ہیں:

لا احصی ثنا علیک (میں تیری ثنا کا احاطہ نہیں کر سکتا)

یعنی جس نے اللہ تعالی کو پہچان لیا وہ ہر چیز سے کٹ گیا بلکہ ہر چیز کی تعبیر سے اس کی زبان گنگ ہو گئی  اور اپنے اوصاف سے بھی فانی ہو گیا؟ چنانچہ جب تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت غیبت میں تھے آپ تھے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب والعجم تھے مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیبت سے حضور میں  لے جایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ مولا!  میری زبان کو یہ طاقت نہیں کہ وہ تیری ثنا کا حق ادا کرسکے میں کہوں تو کیا؟ میری زبان خاموش اور میرا حال بےحالی ہے، تو وہی ہے جو تو ہے،  میری گفتار یا اپنے بارے میں ہوگی یا تیرے بارے میں،  اگر اپنے بارے میں کچھ کہوں تو اپنی بات سے خود محجوب ہوتا ہوں اور اگر تیرے بارے میں لب کھولوں تو مقام قرب میں اپنے اس فعل سے حرف آتا ہے پس میں کچھ نہیں کہتا، فرمان آیا! کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!  اگر آپ کچھ نہیں کہتے تو میں کہتا ہوں۔

لعمرک اذا سکت عن ثنائی فاکمل منک ثنائی

(  مجھے تیری زندگی کی قسم! میری ثنا سے تیری خاموشی ہی سب سے بڑی ثنا ہے)  یعنی اگر تو میری ثنا سے سکوت میں ہے تو میں نے کائنات کے ذرے ذرے کو تیرہ نائب بنا کر حکم دیا ہے کہ میری ثنا کریں اور یہ ثنا تیری طرف سے شمار ہو۔

  اب ہم اپنے ممدوح امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے علم و عرفان کے سمندر کا نظارہ سمندر کی اٹھتی ہوئی موجوں سے کرتے ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:  ''       بعثت انبیاء علیہم الصلوت والتسلیمات رحمت عالمیان است اگر توسط وجود این بزرگواران نمے بود ما گمراہان بمعرفت ذات و صفات واجب الوجود تعالیٰ وتقدس کہ دلالت میفرمودو مرضیات مولاء مارا جلشانہ از عدم مرضیات او سبحانہ کہ تمیز مے نمود و عقول ناقصہ ما بے تائید نور دعوت ایشاں ازین معنی معزول است وافہام ناتمام ما بے تقلید ایں بزرگواران درین معاملہ مخزول آرے عقل ہر چند حجت است اما در حجیت ناتمام است وبمرتبہ بلوغ نرسیدہ، حجۃ بالغہ بعثت انبیاء است علیہم والصلوت والتسلیمات کہ عذاب و ثواب اخروی دائمیبمنوط بہ آنست''

آپ رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہے: '' اگر توسل موجود شریف شان نبودے عقول بشری در اثبات صانع تعالیٰ عاجز بودے''

  شیخ عبدالعزیز جونپوری کو حمد باری تعالی اور شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے طویل مکتوب میں متکلمانہ اور محققانہ انداز میں دقیق مسائل کو حل فرماتے ہیں۔فقط ایک مختصر اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔

''فلا يصل حمد حامد إلى جناب قدس ذاته بل منتهى جمع المجاهد دزن مرادفات غزيه فهو الذي ألنى على نفسه و حمد ذاته بذاته فهو سبحانه الحامل و المحمود وما سواه عاجز عن أداء الحمد المقصود كيف و قد عجز عن حمده سبحانه من هو حامل لواء الحمد يوم القيمة تحته ادم و من هو دونه و هـو الفـضـل البـرايـا وأكملهم ظهورا وا مربهم نيزلة و أجمعهم كمالا و اشلهم جمالا و ألمهم كمالا وأشملهم جمالا و اتمهم بدرا و أرفعهم قدرا و إعظمهم أبهة وشرقا و الومهم دينا و أعزلهم بلة و اكـرامـهـم خسيا و أشرفهم لنا و أعرفهم بيتا لولاه لما خلق الله سبحانه الخلق و لما أظهر الربوبية و كان نبيا و ادم بين الماء والعين و اذا كان يوم القيامة كان هو إمام القيامة كان هو إمام اليمين و خطيبهم و صاحب فـقـاغـبهـم الـذي قـال نـحن الأخرون و نحن السابقون يوم القيمة و إنى واتـل قـول غيـر فخر و انا حبيب الله و انا خاتم البيين ولا أخر و أنا أول الناس خزرجا إذا بعثوا و آنا قائد هم إذا و قنوا و إنا خطيهم إذا القنوا و آنا محتشفعهم إذا خيرا و أنا مبشرهم إذاينسوا الكراناب والمفاتيح يوميذ بیدی''

  اس مختصر لیکن انتہائی جامع و مفید بر اثر و مدلل ومستند اقتباس پر توجہ مرکوز کیجئے۔ علم و عرفان کا چشمہ ابل رہا ہے ۔ حمد باری اور شان رسالت کا عمدہ بیان ایسا معلوم ہوتا ہےکہ روح سے اٹھنے والے جذبات قارئین کی روح کوگر ما اور تڑپارہے ہیں ۔

بقول شاعر  نغمہ وہی ہے نہ کہ ظالم 

روح سنےاور روح سنائے

حضرت امام ربانی مجددالف ثانیؒ کےمکتو بات کی تشریح میں ضخیم کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ راقم الحروف ان چند اشارات پراکتفا کر تے ہوۓ قارئین کی توجہ کو اس ارشاد باری کی طرف مبذول کرتا ہے جو امام ربانی ؒکے جذبات و تخیلات کا ماخذ ومرجع ہے ۔ارشاد خداوندی ہے۔ 

لقد من الله على المومنين اذبعث فيهم رسولا من انفسهم يتلوا عليهم ايته ويزكيهم ويعلهم الكتب والحكمه و ان کا نوا من قبل لفی ضلال مبين

(یقینا بڑا احسان فرمایا اللہ تعالی نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ایک رسول انہی میں سے پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں اور پاک کرتا ہے انہیں اور سکھا تا ہے انہیں قرآن اور سنت ، اگر چہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے )

  یہ کتناعظیم احسان ہے ہرشخص پر جس نے ، جس زاویے سے بھی اس پر غور وفکر کیا اسے غیر محمد وداور لامتناہی احسان قرار دیا۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں: درندہ صفت انسان کیونکرفرشتہ سیرت بن گئے ۔ جنہیں کوئی اپنا غلام بنانا بھی پسند نہیں کرتا تھا کیونکر آئین جہانبانی میں دنیا بھر کے استاد ہو گئے جن کی مٹھی میں شراب تھی ظلم وستم جن کا شعار تھا ،کفر وشرک اور فسق و فجور کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے بھٹکتے صدیاں گزر چکی تھیں۔ ان میں یہ تبدیلی اور ہمہ گیر انقلاب کیونکر آیا جنہوں نے بھی ان حقائق پر غور کیا ہے وہی اس نبی معظم کی شان رفیع کو جان سکتے ہیں تلاوت آیات، تعلیم کتاب و حکمت کے علاوہ تزکیہ نفس اورتربیت صالحہ سے یہ مبارک انقلاب رو پذیر ہوا۔

 سید قطب شہید نے اپنی شاہکار تفسیر ''فی ظلال القرآن''میں محسن حقیقی جلشانہ کے اس احسان عظیم کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

لـقـد كـانـت الـمـنة الا لهية على هذه الأمة بهذا الرسول و بهذهالرسالة عظيمة عظيمة 

بہر کیف یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پوری تاریخ عالم میں ہمیں ایسی عظیم ہستی سواۓ رسول کریم ﷺ کے کوئی نہیں ملتی جو مفکر و مد بر بھی ہو، مصلح و ہادی بھی ہو، حکمران اور فاتح بھی ہو، جو معاشرت معیشت، سیاست، قانون تعلیم ، اخلاق اور عقائد وافکار میں عظیم انقلاب برپا کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ روحانیت کا سرچشمہ اور قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے روحانی الذہن افرادکیلئے ایک بے مثال دائمی نمو نہ عمل بھی ہو۔

 امام ربانی حضرت مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ، اس رہبر انقلاب، ہادی کامل کے اسوہ حسنہ سے مستنیر مستفیض ہوۓ ۔ ان کی شخصیت اور ان کی تعلیمات میں رسول اکرم ﷺ کےروحانی فیض کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ امام ربانی ؒنے معرفت کے حصول کو انبیا کرام کی بعثت بالخصوص ظہورقدسی محمد عربی ﷺ کاثمرقرار دیا ہے کیونکہ یہی وہ چشمہ فیض ہے جہاں سے معرفت خدا وندی اور علم و عرفان کے چشمےپھوٹتے ہیں۔ امام ربانیؒ نے چونکہ اپنے شعور کی آنکھ ایک ایسے دور میں کھولی تھی جب کہ اسلامی تصوف میں عجمی اثرات داخل ہور ہے تھے آپ نے جہاں ان بھی اثرات کا ازالہ فرمایا ہاں بعض وقتی مسائل جو ہنوں میں گھر کر چکے تھے انہیں بھی شافی طور پر حل فرمایا۔ مولا نا طا ہر بدخشی کے نام اپنے مکتوب میں

''درمیان معرفت و ایمان حقیقی چہ فرق است ''تحریر فرماتے ہیں:

''معرفت دیگرست ایمان دیگر چہ معرفت شناختن است و ایمان گرویدن ست شناخت بود و گر و میدان نبود اہل کتاب را در حق پیغمبر ما علیہ وعلی الہ الصلوۃ والسلام معرفت بودو سے شناختند کہ پیغمبر است کما قال اللہ تعالی اما بوسطہ عناد چوں گرویدن نبود ایمان محقق نشد'' 

مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید کے نام اپنے مکتوب میں ''عدم معرفت و بجز از معرفت''کے فرق وامتیاز کواجاگر فرماتے ہوئے یوں منکشف فرماتے ہیں: 

 ''عجز از معرفت نصیب اکابر اولیاست ، عدم معرفت دیگر است و بجز از معرفت دیگر ، عدم معرفت جمبل است و بجز از معرفت علم بلکہ بجز ضمن دوعلم است علم نے وعلم بعدم دریافت کنه آن شے از جهت کمال عظمت و کبریاۓ آن شے،اگر علم ثالث را ہم درج بلم گنجایش دارد و آن عم بعجز وتصور خودست که موید مقام عید بیت و عبودیت خودست و در عدم معرفت جبل است باست که آن جبل مرکب گردد و جهل خود را جبل نداند وعلم انگارد و در بجز معرفت از می معرض نجات تا م است بلکه این مرض آنجا گنجایش ندارد که اعتراف بجز خود دارد و اگر عدم معرفت و بجز از معرفت کیے باشد ہمہ نا دانان عرفا بوند ۔ ۔ بجز از معرفت من است که شباہت بذم دا ر د و عدم معرفت نے مت صرف که رائحه از مدح ندارد رب زدنی علمابکمال العجز عن معرفتک ''

امام ربانی ؒنے مولانا حسن دہلوی کو اپنے طویل مکتوب میں جو حقیقت محمدی علیہ من الصلوت افضلها ومن التسلیمات اکملھا کے بیان اور بعض دیگر دقیق مسائل کے شافی جوابات پرمشتمل ہے ضمنا وجوب معرفت کے مسئلہ کی گرہ کشائی ان الفاظ میں فرمائی ہے :

 "و جوب معرفت بان معنی است کہ ہر چہ شرع بآن وارد شده است در معرفت ذات وصفات واجبی جل شانہ شناختن آن واجب است و بر معرفت کہ از غیر تربیت مستفا دمیگر دد ن وفقیر آنرا معرفت خدا لفتن جرات است و بطن وتمین برحق حکم کردن جل و علا ۱ م  این فقیر را محض فضل و کرم بان مهند ساختہ اند و آن دقیقہ آنست کہ حق معرفت آنست کہ بان معارف شرعیه عارف را عجز از معرفت لاحق شود  "

عجزاز معرفت کی بحث اس قد رلذیذ ہے کہ دراز تر گفتم کے باوجود عجز از تحریر کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں، مضمون طویل ہورہا ہے لہذا آخری گذارش پیش کرتا ہوں کہ معرفت خداوندی اور وہ علم جو عجز از معرفت سے مستفاد ہوتا ہے اس عرفان کے حصول کی مساعی کے لئے امام ربانی ؒنے کن اصولوں کی نشاندہی فرمائی ہے ۔

حضرت شیخ مجدد ؒعلم وعرفان کے مجتہد اعظم ہیں اُن پر وار د معارف و اسرار مخصوصہ وہ بھی ہیں جو آپؒ نے کبھی بیان نہ فرمائے اور وہ بھی جو چند ایک بعض محرمان راز سے ذکر کئے ان معارف کا تو ذکر ہی ممکن نہیں علاوہ ازیں آپؒ نے عام طالبین کی رہنمائی کیلئے جوتحریر فرمائے ان کا بھی حیطہ تحریر میں لا نا محال ہے لہذا راقم الحروف سمندر سے شبنم یا لذت طعام کے تناظر میں'' دیگ سے دانہ '' پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے اور وہ بھی اپنے علمی عجز وبے بضاعتی کے کال اعتراف کیساتھ بلکہ اسے جرات پر بھی محمول کرنا ہوگا اس لئے کہ مفصل کو مجمل میں سمونا امر محال ہے تو مجمل کو اشارات میں سمیٹنا اس سے بھی محال تر ہے تاہم میں نے ان میں سے زیادہ اہم کو لحوظ رکھتے ہوئے اشارات پر اکتفا کرنے کی سعی ضر ورانجام دی ہے ۔

1۔ عقائد حقہ:

 امام ربانی ؒ،خان جہان کو اپنے طویل مکتوب میں عقائد کی اہمیت وضروت پر روشنی ڈالتے ہوۓ تحریرفرماتے ہیں: 

" آدی را ازتصحیح عقائد بموجب آراۓ فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کر سواداعظم و جم غفیراند چاره نبود تا فلاح ونجات اخروی متصور شد وخبث اعتقاد کہ مخالف معتقدات اہل سنت ست سم قاتل است کہ بموت ابدی وعذاب سرمدی برساند۔

''بدانند کہ -اللہ تعالی بذات قدیم خودموجوداست ۔

اوسبحانہ یگانہ است شریک ندارد نہ در وجوب و جودونہ دراستحقاق عبادت۔ ومر اور اتعالی صفات کاملہ است ازاں جملہ حیات وعلم وقدرت وارادت وسمع و بصر و کلام وتكوين ست۔

 وأوتعالی از صفات ولوازم جواہر واجسام واعراض منزه است، زمان و مکان و جہت را در  حضرت اوتعالی گنجائش نیست ۔

بے خبر باشد کہ اور اسبحانہ فوق العرش خواند و جہت فوق اثبات کند عرش و ماسواۓ آن ہمہ حدرث اند ۔  واوتعالی جسم و جسمانی نیست، جو ہر وعرض نیست ،محدودومتناہی نیست۔

واو تعالی باہیچ چیز متحد نشود و ہیچ چیز باوۓ متحد گر و دو نیز یک چیز دروے تعالی حلول نکند ۔  باید دانست کہ اسما بالله تعالی توقیفی اند یعنی موقوف پر سارع انداز صاحب شرع۔

 قرآن کلام خداست جل سلطانہ کہ بلباس حرف وصوت در آورده بر پیغمبر ما علیہ وعلى الہ لصلوه والسلام منزل ساختہ است۔

2۔ اوامر ونواهی و اصول پنجگانہ اسلام :

امام ربانی ؒنے اس طویل مکتوب میں تحریر فرمایا ہے: 

بعد از صیح اعتقاد از انتقال آوامر دا انتہا از نواہی شرعیہ کہ بعمل تعلق دار دنیز چاره نبود ۔نماز پنجوقت بے فتور با تعدیل ارکان ۔

اصل اول ایمان بخدا و رسول اوست جل شانہ واصل دویم نماز ست واصل سیوم ادام ز کو است داصل چہارم روزہ ہاۓ ماہ رمضان است و اصل پنجم حج بیت اللہ است۔ اصل اول با بیان تعلق دارد واصول اربعہ باعمل تعلق دارند ۔

3۔ اتباع سنت: 

امام ربانیؒ اپنے طویل مکتوب میں جو آپؒ نے سید شاہ محمدکو تحیرر فرمایا ہے اتباع سنت کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں:

’’ متابعت آن سرور علیہ وعلٰی اٰلہ الصلوۃ والسلام کی سرمایہ سعادت دینیہ  و دنیویہ  است درجات و مراتب دارد۔ درجہ اُولیٰ مرعوام اہل اسلام راست از ایتان احکام شرعیہ ومتابعت سنت سفید بعد از تصدیق قلب و پیش از اطمینان نفس کہ بدرجہ ولایت مربوط است و علما وظلوا ہروعباد وز ہاد کہ معاملہ شان باطمینان نفس نہ پیوستہ است ہمہ در این درجہ متابعت شریک کند و در حصول صورت اتباع برابرند ۔

این صورت متابعت در رنگ حقیقت متابعت موجب فلاح درستگاری آخرت است و منجی از عذاب نا راست ومبشر بدخول جنت ۔

 درجہ دوم از متابعت اتباع اقوال و اعمال اوست علیہ وعلیٰ اٰلہ الصلوۃ والسلام کے بباطن تعلق دارداز تہذیب اخلاق و دفع رزائل صفات وازالہ امراض باطنیہ وعلل معنویہ کہ بمقام طریقت  متعلق اند۔   درجہ سوم از متابعت اتباع احوال واذواق امواجید آن سرور است علیہ واٰلہ الصلوۃ والسلام کہ بمقام ولایت خاصہ تعلق دارند این در جہ خصوص بار باب ولایت است ۔ درجہ چہارم از اتباع مخصوص بعلماء را سخین است ۔علامتے از براۓ علماء راسخین بیان کنم تا ہر ظاہردانے دعویٰ رسوخ ئماید۔ در جہ پنجم ار متابعت در اتباع کمالات آن سرور است علیہ وعلیٰ اٰلہ الصلوۃ والسلام کے علم وعمل را در حصول آن کمالات مد خلے نیست بلکہ۔

درجہ ششم افاضہ کمالات آن بمجد ودمحبت است۔  درجہ ہفتم از متابعت آنست کہ تعلق بنزول و ہبوط دارد و این درجہ سابع از متابعت جامع جمیع درجات سابق است۔

ذراغور وفکرفرمائیے توجہ مبذول کیجئے۔ متابعت کے ساتوں درجات کی خصوصیات سے کامل  طور پر آگاہ و باخبر ہستی۔امام ربانیؒ کواگر عرفان کا مجتہد اعظم نہ کیا جائے تو اور کیا کہا جائے ؟ اگر علم و عرفان کا سمندر موجزن نظر آتا ہے تو دوسری طرف عرفان مقام مصطفی ﷺ کی عظمتوں سے مستنیر ومستفیض ہونے کی سعادت سے بہرہ یاب ہے اور تیسری طرف عرفان کے انوار وتجلیات کو اطراف اکناف عالم تک پہنچانے کے لئے سرگرم ہے۔

 سبحان اللہ! 

شریعت سے کامل وابستگی: 

قاضی موسی کو التزام شریعت کی ترغیب دیتے ہوئے امام ربانی ؒتحریرفرماتے ہیں ۔ ''   النصيحة هـي الـديـن و متـابـعـة سيـد المرسلين عليـه و عليهم  الصلوت والسليمات غاية ما في الباب'' 

متابعت را اقسام ست یک قسم آن اتیان احکام شرعیہ است۔

امام ربانیؒ شیخ محمد چتری کو اپنے مکتوب میں شریعت کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے  ہوئےلکھتے ہیں:  مخد و ما بعد از طی منازل سلوک وقطع مقامات جذبہ  معلوم شد کہ مقصود از ین سیر وسلوک تحصیل مقام اخلاص است کہ مربوط بفنائےآلہہ آفاقی و انفسی است و این اخلاص جز ویست از اجزاۓ شریعت چہ شریعت را سہ جز واست علم وعمل واخلاص۔ پس طریقت و حقیقت خادم شریعت اند در تحمیل جز واو کہ اخلاص است ۔حقیقت کار این است اما فہم ہرکس اینجا نرسد اکثر عالم بخواب و خیال آرمیدہ اند ،از کمالات شریعت چہ دانند۔

خواجہ شرف الدین حسین ؒکو اپنے مکتوب میں نصیحت فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں: 

" فرزند عزیز باتمیز زنہاز بمزخرفات دنیہ راغب نشوی و بطمطراقات فانیہ فریفتہ نگردی و سعی نمائی کہ در جمیع حرکات وسکنات بمقضائےشریعت غرا عمل نموده آید و برونق ملت زہرا زندگانی کردہ شود۔ شیخ نظام تھانیری  کو فعض و نوافل کے درجات کا فرق بیان کرتے ہوئے امام ربانیؒ تحریر فرماتےہیں: ’’مقربات اعمال یا فرائض اند یا نوافل۔نوافل را در جنب فرائض، پیچ اعتبار نیست ۔ ادائے فرضی از فرائض در وقتی از اوقات بہ از اداۓ نوافل ہزا رسالہ است۔

مثلا تصدق دانگی در حساب زکٰوۃ ہمچنانکہ  از تصدق جبال عظام از ذهب بطریق نفل بمراتب بہتر اس۔

امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالی عنہ بواسطہ ترک ادبے از آداب وضوئے نماز چہل سالہ را قضا فرمودند ۔

 امام ربانیؒ اور احکام شرعیہ کے علم کا حصول: 

احکام شرعیہ کے علم کی تحصیل کی اشد ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے امام ربانی ؒفرماتے ہیں:

 "أعمال را صحیح وقتی میسر شود کہ اعمال را بشناسد و کیفیت ہرعمل بداند و آن علم احکام شرعی است از نماز و روزه وسائر فرائض وعلم معاملات و نکاح و طلاق و مبالیات وعلم ہر چیز کہ حق سبحانہ وتعالٰی وا جب ساختہ است و او را بدان دعوت فرموده است و این علوم اکتسابیہ است از آموختن آن ہچکس را چاره نیست وعلم میان دو مجاہده است یکے مجاہدہ در طلب آن قبل ازحصول و مجاہدہ دوم در استعمال آن بعد از حصول پس باید ہمچنانکہ در مجلس شریف از کتب تصوف مذکور مے شود از کتب فقہیہ نیز مذکورشود''۔

  شریعت وطریقت وحقیقت کا حسین امتزاج: 

امام ربانی ؒنے میر محمد نعمان کو مجاہدات کی ترغیب دیتے ہوئے تحریرفرمایا: 

"از کسل بعمل آمده وازفراغت بمجاہدو رُو آورده ۔ وقت کشت و کار است نہ موسم خورد و خواب۔

شیخ محمد یوسف کو نصیحت فرماتے ہوئے آپؒ نے لکھا: '' ظاہر را بظا ہر شریعت و باطن را بباطن شریعت کہ عبارت از حقیقت است متحلی ومتز مین دارند چہ حقیقت و طریقت عبارت از حقیقت شریعت است و طریقت آن حقیقت نہ آنکہ شریعت امری دیگرست طریقت و حقیقت دیگر  است کہ آن الحادوزندقہ است ۔

 میر محمد نعمان کے سوال کہ دعا وتفرع وزاری و دوام التجاو تلاوت قرآن ونماز کس پرترجیحی عمل کیا جائے ؟ جواباً تحریر فرماتے ہیں: 

از ذکر گفتن چاره نیست با این ہر چہ جمع شود دولتست مدار وصول بر ذکر نہاده اند چیز ہاۓ دیگر در رنگ ثمرات ونتائج ذکراند ،ذ کرنفی واثبات در رنگ وضوا ست کہ شرط نماز است تا طہارت درست نشودشروع در نماز ممنوع است، تمتعات دنیوی ومزخرفات فانی لاشے محض است عاقل بآن مفتون نشودمبتلا نہ گردد و پیش نظر باید کہ احوال   آخرت بود و دوام بذکر مشغول باشد ۔

امام ربانی ؒ،خان اعظم کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: 

” طریق حضرات خواجگان قدس اللہ تعالی اسرارهم مبنی براندراج نهایت در بدایت است، حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالی سره فرموده اند کہ ما نہایت را در بدایت درج می کنیم دین طریق بعینہ طریق اصحاب کرام است۔

قاضی موسٰی کومحبت اربان جمعیت، صحبت شیخ کی تلقین فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

بالجملہ مدار افاده واستفاده این طریقه بر صحبت ست۔

بگفتن و نوشتن کفایت نمیشو د حضرت خواجہ نقشبند فرموده اند قدس سره کہ طریقہ ما صحبت ست و اصحاب کرام بدولت صحبت خیر البشر علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات از اولیا ءامت افضل آمدند ۔

''بلکہ گویم کہ فی الحقیقت وجود اہل اللہ کراتے ست از کرامات و دعوت ایشان مرخلق را بحق جل سلطانہ رحمتے است ......الخ

ترویج اسلام:

 امام ربانی ؒ،اپنے مکتوب میں لالا بیگ کو دوقومی نظریہ، مسلم قومیت اور ملی تشخص کواجاگر کرنے کی تلقین فرماتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں: 

غربت اسلام نزدیک بیک قرن است بر نیچے قرار یافتہ است کہ اہل کفر بجر داجرای احکام کفر بر طلا در بلا واسلام راضی نمی شوند ،میخوا ہند کہ احکام اسلامیہ بالکلیہ زائل گردند واثرےاز مسلمانان مسلمانی پیدانشو دو کار را تا بان سرحد رسانیده اند کہ اگر مسلمانی از شعارا سلام اظہار نماید بقتل میرسد، در ابتدا پادشاہت اگر مسلمانی رواج یافت و مسلمانان اعتبار پیدا کردند فبہا اگر عیاذا ًبالله سبحانہ در توقف افتاد کار بر مسلمانان بسیار مشکل خواہد شد الغیاث الغیاث ثم الغياث الغياث ۔

 میر محمد نعمان کو اپنے طویل مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: 

الشرع تحت السیف رواج شریعت غرامر بوط بحسن اہتمام سلاطین عظام ست ،ناچار اسلام ضعیف کشتہ کفار ہند بے تحاشی ہدم مسا جدی نمانید،نیز کفار بر ملا مراسم کفر بجامےآرند و مسلمانان در اجراۓ اکثر احکام اسلام عاجز اند، افسوس صد ہزارافسوس پادشاه وقت ۔از ماست و مافقیراں با یں زبونی وخرابی ......الخ 

گو یا سلاطین عالم کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ وہ عظمت وصداقت اسلام کا بول بالا کرنے کیلئے میدان عمل میں آئیں اور شریعت مصطفوی کو قانون کی صورت میں نافذ کر یں اور اسلامی اقدار کو مقد ور بھر فروغ دیں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ سلاطین عالم سے قطع نظر، عامتہ المسلمین کیلئے امام ربانی ؒکا پیغام عصر حاضر کے مسلمانان عالم کے نام یہ ہے جسے اجمالاً علامہ اقبالؒ نے امام ربانی ؒکے انکار سے متاثر ہوکر اس شعر میں سمودیا ہے ۔

تا نہ خیز و بانگ حق از عالمے 

گر مسلمانی نیا سائی دمے

 اس اجمال کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ امام ربانیؒ اپنے آقا ومقتدیٰ احمدمجتبی ﷺ کی متابعت کی سعادت کے حصول اوران کے اسوہ حسنہ کی پیروی اور فیضان سے اس قدرمستنیر و مستفیض ہو چکے ہیں کہ ان کے روز وشب بھی''ان لک فـي الـنـهـار سـبـحا طويلا 0 و اذكـر اسـم ربک و تـبـتـل الـيـه تبتيلا '' کے معمولات نبوی اور سنت مبارکہ میں ڈھل گئے ہیں اور اس عظیم مقام اور تکمیل نام کے حصول پر وہ مطمئن نہیں ہو گئے بلکہ اس نور کو جملہ فرزندان توحید تک پہنچانے کیلئے عزم راسخ کے ساتھ سرگرم عمل ہیں ۔ میرمحمد نعمان کو تاکید فرماتے ہیں:

نصف شب را براۓ خواب معد سا زند ونصف دیگر را براۓ طاعت و عبادت ،و سعی فرمایند کہ در دوام حصول این دولت فتورنر ود..الخ 

گویا مرد مومن کو شریعت کے ساتھ کامل وابستی حاصل ہو اور رات کے سہانے سماں میں وہ معرفت خداوندی کے حصول کیلئے ذکر دعبادت میں مشغول ہو جاۓ اس طریق سے مرد مجاہد کو تو کل اور یقین کی وہ نعمت نصیب ہوگی کہ بقول اقبالؒ

جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا

تو کر لیتا ہے سے بال و پر روح الامین پیدا

اور وہ حق پر استقامت اختیار کرنے میں بھی تذبذب کا شکار نہ ہوگا ۔ حب الہی کی تپش (اشد جتااللہ ) اور حب رسول کی نعمت سے سرفراز ہوکر ''جہاد فی سبیلہ''اس کیلئے آسان ہو جائے گا اس کے عزم کی چٹان سے رکاوٹیں ٹکرا کر پاش پاش ہوتی چلی جائیں گی۔ 

یہ راستہ بڑا دشوار اور منزل بہت کٹھن ہے امام ربانی ؒکے پسندیدہ شعر میں یہ اشارہ موجوده:

 كيف الوصول الى سعاد و درنها قلل الجبال و دونهن خيوف 

سعاد (محبوبہ ) تک پہنچنا آسان نہیں کیونکہ اس کے اور میرے درمیان پہاڑوں کی بلند چوٹیاں اور خوفناک گھاٹیاں حائل ہیں۔

اور یہ شعر آپ کو پسند کیوں نہ ہو!آپ ؒکی پوری زندگی اس حور کے گرد گھوم رہی ہے۔

زندگانی کی حقیقت کو بکن کے دل سے پوچھ

جوئے شیرو تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

 ایک مکتوب میں فرمایا: 

" با وجود مرادیت چندان قطع منازل کرده میشود کہ مریدان را در عمر نوح ہم معلوم نیست کہ میسرشود'' عرفان کا یہ مجتہد اعظم ، معرفت خداوندی کی نعمت سے سرشار ہو کر جہاں اس بادہ جانفزا سے خودلطف اندوز ہوتا ہے وہاں اپنے آ تا و مقتداء عالمی اور آفاقی نبی رحمت ﷺ کی اتباع می اور ان کی اس موت کو اطراف و اکناف عام تک پہنچانے کیلئے گرم اور ستر نظر میں علم و عرفان کی اس نعت کو اطراف واکناف عالم تک پہنچانے کیلئے سرگرم عمل اور مستعد نظر آتے ہیں۔

 

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

اور دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

چنانچہ سلاطین شہزادوں ،معزز افسران و امراء کو وعظ وارشاداورمکتوبات کے ذریعے تبلیغ کا فریضہ بطریق احسن انجام دے رہے ہیں بیرونی ممالک میں تبلیغی وفود بھجوارہے ہیں اور مسلمانان عالم کی صلاح اعظم کیلئے نہ صرف خودسرگرم عمل ہیں بلکہ اپنے متوسلین اور مجاہد بین ملت کو حوصلہ دلا رہے ہیں کہ وہ علم و عرفان اور معرفت خداوندی کے حصول کیلئے بھر پور مساعی عمل میں لائیں ۔ مثل

کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی

اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لا تخف

 اپنے اس مختصر مقالے کو اس دعا ختم کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں: 

ونسئلک اللهم بنور وجهك الذي ملا اركان عرشک ان تزرع في سيلة : قلبی معرفتک حتی اعرفک حق معرفتك كما ينبغي ان تعرف به وصلى الله على سيدنا محمد خاتم النبین و امام المرسلين و على اله و صحبه و سلم تسليما و الحمد لله رب العلمين 0